Legal Rights for Women in Pakistan | Forced Marriage | Workplace Harassment | Domestic violence | Prisoner




عورت کو حق وراثت سے محروم کرنے کی سزا



دفعہ498-A کے تحت ہر وہ شخص جو کسی عورت کو وراثت کے حق سے محروم کرے گا اسکو زیادہ سے زیادہ دس اور کم از کم پانچ سال تک قید کی سزا اور دس لاکھ روپے تک کے جرمانے کی سزا سنائی جائے گی۔


زبردستی شادی پر مجبور کرنے کی سزا
قرآن پاک سے شادی پر مجبور کرنے کی سزا
کام کی جگہ ہراساں کرنے کا قانون
گھریلو تشدد کے قانون کا بل
قیدی خواتین کے حقوق



خواتین کو حاصل قانونی حقوق

قانونی حقوق کی تین اقسام ہیں۔
۱۔ فوجداری قوانین کے تحت خواتین کو حاصل حقوق۔
۲۔ عائلی قوانین کے تحت خواتین کو حاصل حقوق۔
۳۔ دیوانی قوانین کے تحت خواتین کو حاصل حقوق۔

۱۔ فوجداری قوانین کے تحت خواتین کو حاصل حقوق۔
تعزیرات پاکستان 1860 ء

) تعزیرات پاکستان 1860 ء کی دفعہ 310 کے تحت خواتین کو بدل صلح میں دینا منع ہے اور 310-A کے تحت اگر کوئی شخص کسی خاتون کو بدل صلح میں دے گا تو ایسا کرنے والے کو کم ازکم 3 سال اور زیاد ہ سے زیادہ 7 سال تک سزا دی جائے گی اور جرمانے کی سزا بھی جو پانچ لاکھ روپے تک ہو سکتا ہے۔
) دفعہ332 کے تحت اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو ضرر پہنچائے یا زخمی کرے یا اسکے جسم کے کسی حصے کا اتلاف کرے یا اسکو بگاڑ دے یا اسکی اصل شکل تبدیل کردے یا اسکو ناکارہ کردے تو اسکو جرح کہتے ہیں۔
) دفعہ336-A کے تحت اگر کوئی شخص جان بوجھ کر کسی دوسرے کو آگ سے یا کسی اور جلنے والی چیز سے، کسی ایسڈ(کوئی بھی ایسا کیمیکل جو انسانی جسم کر جلادے)یا زہر سے زخمی کرتا ہے تو یہ بھی جرح کی تعریف میں آئے گا۔
) دفعہ336-B میں دفعہ 332 اور336-A کے تحت جرح سرزد کرنے کی سزا بیان کی گئی ہے جو کہ عمر قید یا 10 لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہے۔ اسکے علاوہ ایسا شخص جو کہ جرح کرنے کا مرتکب ہو گا وہ زخمی کے علاج معالجے اور نقصان کو بھی برداشت کرے گا۔
) تعزیرات پاکستان کی دفعہ354 میں ایسے شخص کیلئے 2 سال قید کی سزا مقرر کی گئی ہے جو کسی عورت کی عزت و ناموس کو پامال کرنے کے لئے اس پر حملہ کرتا ہے۔
) اگر وہ اس حملے میں اسے سرعام عریاں کردے تو 354-A کے تحت ایسے شخص کیلئے سزائے موت یا عمر قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔
) دفعہ365-B کے تحت ایسے شخص کیلئے عمر قید اور جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے جو کسی خاتون کا زنا بالجبر یا زبردستی شادی کرنے کیلئے اغواء کرتا ہے۔
) دفعہ366-A کے تحت اگر کوئی شخص کسی نابالغ بچی کو جنسی استحصال کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ لیکر جاتا ہے تو ایسے شخص کو دس سال تک کی سزائے قید اور جرمانے کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
) دفعہ366-B کے تحت اگر کوئی شخص کسی نابالغ بچی کو جنسی استحصال کیلئے کسی دوسرے ملک سے لیکر آتا ہے تو ایسے شخص کو دس سال تک کی سزائے قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔
) دفعہ367-A کے تحت ایسا شخص جو کسی کو اغواء کرے اسکے لئے 25 سال تک کی سزا اور جرمانہ مقرر کیا گیا ہے۔
) دفعہ371-A کے مطابق اگر کوئی شخص خواتین کو عصمت فروشی کی غرض سے خریدتا، بیچتا یا کرائے پر لیتا یا دیتا ہے تو اسکے لئے25 سال تک کی قید کی سزا رکھی گئی ہے۔
) دفعہ371-B کے مطابق کسی بھی خاتون کو عصمت فروشی کی غرض سے خریدنا یا کرائے پر لینا جرم ہے جسکی سزا25 سال قید اور جرمانے کی سزا ہوگی۔
) دفعہ375 زنا بالجبر کو بیان کرتی ہے۔
) دفعہ376 میں زنا بالجبر کا ارتقاب کرنے والے کیلئے سزائے موت یا 25 سال قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ اس دفعہ کے تحت اگر کسی خاتون کے ساتھ اجتماعی ذیادتی کی گئی ہو تو اس گروہ کے ہر فرد کیلئے سزائے موت یا 25 سال قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔
) دفعہ493 کے تحت اگر کوئی شخص کسی عورت سے دھوکہ دہی سے شادی کرتا ہے یا ایسا کرنے میں کسی دوسرے شخص کی مدد کرتا ہے تو اسکے لئے 25 سال تک قید اور جرمانہ تیس ہزار مقرر کیا گیا ہے۔
) دفعہ496-A کے تحت ایسے شخص کیلئے کم از کم 7 سال قید اور جرمانہ کی سزا مقرر کی گئی ہے جو کسی عورت کو زنا بالجبر کی غرض سے بھلا پھسلا کر لے جاتا ہے یا اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اسے چھپاتا یا قید کرتا ہے۔
) دفعہ496-B کے تحت اگر کوئی مرد اور عورت زنا بالرضا کے مرتکب ہوں تو انکے لئے پانچ سال تک کی قید اور دس ہزار جرمانہ کی سزا مقرر کی گئی ہے۔
) دفعہ496-C کے تحت اگر کوئی شخص کسی پر زنا کا جھوٹا الزام لگائے گا یا جھوٹی شہادت دے گا تو اسکے لئے پانچ سال تک قید کی سزا اور دس ہزار جرمانہ کی سزا مقرر کی گئی ہے۔


زبردستی شادی پر مجبور کرنے کی سزا

دفعہ 498-B کے تحت جو شخص کسی عورت کو زبردستی شادی پر مجبور کرے گا اسکو زیادہ سے زیادہ دس سال قید اور کم از کم تین سال تک کی قید کی سزا اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا سنائی جا ئے گی۔


قرآن پاک سے شادی پر مجبور کرنے کی سزا
دفعہ498-C کے تحت جو شخص کسی عورت کو قرآن پاک کے ساتھ شادی پر مجبور کرے گا یا اسکا انتظام کرے گا اسکو زیادہ سے زیادہ سات اور کم از کم تین سال تک قید کی سزا اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جائے گی۔


کام کی جگہ ہراساں کرنے کا قانون
دفعہ509 تعزیرات پاکستان میں ایسے شخص کیلئے ایک سال تک کی قید کی سزا مقرر کی گئی ہے جو کسی عورت کی عزت و ناموس کی توہین کرے، آوازیں لگائے یا کسی چیز کی نمائش کی ذریعے کسی بھی عمل کے ذریعے اسکا تقدس پامال کرے۔
2009 ء میں ”کام کی جگہ ہراساں کرنے کا قانون“ کے تحت اس دفعہ میں ترمیم کی گئی جسکے مطابق اس دفعہ کا اطلاق ملازمت کی جگہ، دفاتر، فیکٹری، کارخانہ وغیرہ پر ہوتا ہے اور سزا میں تین سال اور پانچ لاکھ روپے تک کے جرمانے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت عورتوں کو انکے کام کرنے کی جگہوں پر ہراساں کرنا جرم قرار دیا گیا اور انکو اس سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اسی طرح اس قانون کے تحت ہر محکمہ میں ایسا جرم سرزد کرنے والے شخص کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کیلئے مناسب طریقہ کار متعین کیا گیا ہے۔

گھریلو تشدد کے قانون کا بل
گھریلو تشدد کے قانون کا بل بھی پارلیمنٹ میں پیش ہوا جسکے تحت گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کو داد رسی مہیا کی گئی ہے۔


ضابطہ فوجداری 1898 ء
) دفعہ52 ضابطہ فوجداری کے تحت اگر کسی بھی عورت کی تلاشی لینا مقصود ہو تو اس مقصد کیلئے خاتون پولیس بلائی جائے گی۔ کسی خاتون ملزمہ کو کوئی مرد ہاتھ نہیں لگائے گا۔
) کاتون ملزمہ کی گرفتاری کی صورت میں اسے مردوں کے تھانے میں نہیں رکھا جائے گا۔ جن علاقوں میں خواتین کیلئے الگ تھانے موجود نہ ہوں وہاں گرفتار شدہ خاتون کو حوالات (جیل) میں بھجوادیا جائے گا۔
) سورج غروب ہونے کے بعد اور سورج طلوع ہونے سے پہلے کسی خاتون ملزمہ کو تھانے میں نہیں رکھا جائے گا۔
) دفعہ497 ضابطہ فوجداری کے تحت خاتون ملزمہ کو خصوصی ضمانت کا حق حاصل ہے۔ اسکا اطلاق دہشت گردی یا ایسے جرائم جن میں سزائے موت یا سزائے عمر قید ہو پر نہیں ہوگا۔
) اگر کوئی شخص حد زنا آرڈیننس 1979 ء کی دفعہ5 کے تحت زنا بالرضا کا ارتکاب کرے تو اسکے خلاف دفعہ203-A کے تحت مجاز عدالت میں استغاثہ دائر کیا جا سکتا ہے۔
) اگر کوئی شخص حد قذف آرڈیننس 1979 ء کی دفعہ7 کے مطابق کسی پاک دامن پر زنا کا الزام لگائے تو ایسی صورت میں اسکے خلاف دفعہ 203-B کے تحت مجاز عدالت میں استغاثہ دائر کیا جا سکتا ہے۔
) اگر کوئی شخص تعزیرات پاکستان کی دفعہ 496-A کے مطابق زنا بالرضا کا ارتکاب کرے تو دفعہ203-C کے تحت اسکے خلاف مجاز عدالت میں استغاثہ دائر کی جا سکتا ہے۔


قیدی خواتین کے حقوق
قیدی خواتین کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو کہ قیدی مردوں کو حاصل ہیں بلکہ جیل رولز کے تحت کئی معاملات میں خواتین قیدیوں کو بحیثیت خاتون خصوصی حقوق دیئے گئے ہیں۔ ضابطہ فوجداری اور قیدیوں کے حقوق کے قانون کے تحت قیدی خواتین کو جیل میں ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے اور اس طرح سے قیدی خواتین کو انکے مقدمات کی پیروی کرنے، کسی بھی مجاز عدالت میں اپیل کرنے اور قید میں مختلف اوقات میں مختلف طرح کی معافیاں ملنے وغیرہ کے حقوق حاصل ہیں۔

Post a Comment

0 Comments